نومبر
کے آخری دن
تھے زرد پتے
ایک ایک کر
کےدرختوں سے
جدا ہوکر زمیں
پر بکھرے تھے۔
لوگ سردی کا
استقبال گرم
لباسوں سے
کرچکے تھے۔
عامر ذرد
پتوں کو پاوں
سے کچلتا ہوا
مسجد میں داخل
ہوا۔۔۔ یہ
کوئٹہ شہر کا
ایک معروف
مسجد ہے جس میں
پہلی بار عامر
کو نماز جمعہ
ادا کرنے کی
سعادت ملنے
والی تھی۔
عامر مسجد کے
اندر داخل ہواـــ
سبحان اللہ !
یہ مسجد ہے کہ
شاہجہاں کا
شیش محلـــــــ
مسجد کے اندرونی دیواروں پر جس قدر باریک بینی اور صفائی سے کاریگروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے خدا کرے ان کے ہاتھ سلامت ہوں۔۔۔ مسجد کے سامنے کی پوری دیوار کے دائیں طرف باریک شیشوں کو بڑی ہنر مندی سے تراش کر خوبصورت نقوش بنائے گئے تھے جن کے بیچ میں اللہ تعالٰی کے 99 نام بڑی خوبصورتی سے لکھے گئے تھے جب کہ بائیں طرف بھی اس اعلیٰ خوبصورتی سے حضرت محمدﷺ کے نام لکھے گئے تھے جبکہ بیچ میں امام صاحب کی جماعت دینے کی جگہ تو کسی شہنشاہِ عالم کے تخت جیسا حسین تھا جس میں مختلف رنگوں سے شیشے تراش تراش کر لگائے گئے تھے جن میں چار چاند رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی بتیوں نے لگا دی تھی۔ اس طرح مسجد کے تمام پلر بھی اسی انداز میں آراستہ تھیں اور مسجد کی چھت تو ماشاءاللہ کئی مہینوں کے محنت کا ثمر ہیں ان پر باریک بینی سے تراشی ہوئی شیشے تو کاریگری اور فن کی اعلٰی مثال تھیں ان پر بھی مختلف آیات اور احادیث بڑی ہنر مندی سے رنگ برنگی شیشوں سے لکھی گئیں تھیں۔
مسجد کے اندرونی دیواروں پر جس قدر باریک بینی اور صفائی سے کاریگروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے خدا کرے ان کے ہاتھ سلامت ہوں۔۔۔ مسجد کے سامنے کی پوری دیوار کے دائیں طرف باریک شیشوں کو بڑی ہنر مندی سے تراش کر خوبصورت نقوش بنائے گئے تھے جن کے بیچ میں اللہ تعالٰی کے 99 نام بڑی خوبصورتی سے لکھے گئے تھے جب کہ بائیں طرف بھی اس اعلیٰ خوبصورتی سے حضرت محمدﷺ کے نام لکھے گئے تھے جبکہ بیچ میں امام صاحب کی جماعت دینے کی جگہ تو کسی شہنشاہِ عالم کے تخت جیسا حسین تھا جس میں مختلف رنگوں سے شیشے تراش تراش کر لگائے گئے تھے جن میں چار چاند رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی بتیوں نے لگا دی تھی۔ اس طرح مسجد کے تمام پلر بھی اسی انداز میں آراستہ تھیں اور مسجد کی چھت تو ماشاءاللہ کئی مہینوں کے محنت کا ثمر ہیں ان پر باریک بینی سے تراشی ہوئی شیشے تو کاریگری اور فن کی اعلٰی مثال تھیں ان پر بھی مختلف آیات اور احادیث بڑی ہنر مندی سے رنگ برنگی شیشوں سے لکھی گئیں تھیں۔
اللہ
ُاکبر اللہُ
اکبرــــــ
مولوی صاحب کے بیان سے بے نیاز عامر جو کہ مسجد کہ حُسن میں کھویا ہوا تھا اذان کی آواز سن کے چونک گیا اور سنبھل کر ادب سے بیٹھ گیا۔۔۔ اذان کے بعد خطبہ اور پھر جماعت ۔۔
مولوی صاحب کے بیان سے بے نیاز عامر جو کہ مسجد کہ حُسن میں کھویا ہوا تھا اذان کی آواز سن کے چونک گیا اور سنبھل کر ادب سے بیٹھ گیا۔۔۔ اذان کے بعد خطبہ اور پھر جماعت ۔۔
اسلام
و علیکم
ورحمتہ اللہ
اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ
دعا کے لیے نمازیوں کے ہاتھ بلند ہوئے مگر امام صاحب کہ الفاظ سن کر لوگ اٹھے ہوئے ہتھیلیوں کو ملنے لگے۔۔
"حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں۔ مسجد کے چھت پر بننے والی گنبد اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے جس کے بعد اگلے مرحلے میں ٹائلز کی تنصیب کا کام شروع ہو جائے گا، اعلیٰ معیا ر کے ٹائلز باہر (غالباََ باہر ملک) سے منگوائیں جائیں گے جس پر تقریباَََ ڈیڑھ لاکھ کا خرچہ آئے گا، اس مبارک کام میں دل کھول کر حصہ ڈال کر جنت میں گھر بنائیں"
اللھم صل اعلیٰ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔آمین
دعا کے بعد کچھ مدرسے کے طالب علم صفحوں میں چادر کی جھولی تھامے جزاک اللہ جزاک اللہ کہتے ہوئے داخل ہوئے جب عامر کے قریب پہنچے تو عامر نے جیب میں ہاتھ ڈالا ، نوٹ دیکھا اور ارادہ بدل دیا اور اس کار خیر میں حصہ نہیں لیا ۔۔ باقی 8 رکعت اس سوچ میں افسوس کرتے ہوئے گزارے کہ اس نے صدقے میں حصہ کیوں نہ لیا ـــ دعا مانگتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کر کوئی بات نہیں باہر گیٹ پر بھی مسجد کے لیے چندہ لینے والے موجودہیں ان کو دے دوں گاـــــــ
باہر پہنچا جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ نوٹ نکالا اور مٹھی میں بند کرکے ان دو کمسن طالب علموں کی طرف ارادہ کیا جو مسجد کے لیے چندہ لے رہے تھے، عامر نے غور کیا کہ دونوں طالب علم کسی غریب گھر سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ایک اس سردی میں کانپ رہی تھی اس کے جسم پر کوئی کوٹ نہیں تھیــــــ عامر نے ہاتھ بڑھایا اور جھولی میں وہ روپے ڈالنے لگا مگر اچانک ہاتھ جولی کی بجائے اس کمسن طالب علم کی جیب کی طرف بڑھایا اور اسکی جیب میں وہ نوٹ ڈال کر کہا اپنے لیے کوئی کوٹ خرید لیناــــــ "طالب" یہ ـــ یہ کیا؟؟
اس سے قبل کے وہ مزید کچھ کہتا عامر نے اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرے ہوئے مسجد سے نکل گیا۔۔۔
اللہ کے نام پر 10 روپے دے دو بابا۔۔ بچہ بھوکا ہے روٹی لیکر دو اللہ تیرا بھلا کرے۔۔۔ مسجد کے باہر بیٹھے بھکاریوں کی فریادیں ابھی تک اس کے کان سے ٹکرا رہی تھیںــــ عامر آگے چلاـــــ کچھ اور قدم آگے بڑھا کر وہ ایک دم سے رک گیاـــــ پیچھے مڑ کر دیکھاـــــــ مسجد کی زیر تعمیر گنبد پر کچھ لمحے نظریں جما کر اس کی نگائیں آسمان پر گئیںــــــــ وہ مسکرا کر بولا " Sorry Boss آپ کے گھرسے زیادہ صدقے کی ضرورت آپ کے بندوں کو ہے"
اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ
دعا کے لیے نمازیوں کے ہاتھ بلند ہوئے مگر امام صاحب کہ الفاظ سن کر لوگ اٹھے ہوئے ہتھیلیوں کو ملنے لگے۔۔
"حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں۔ مسجد کے چھت پر بننے والی گنبد اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے جس کے بعد اگلے مرحلے میں ٹائلز کی تنصیب کا کام شروع ہو جائے گا، اعلیٰ معیا ر کے ٹائلز باہر (غالباََ باہر ملک) سے منگوائیں جائیں گے جس پر تقریباَََ ڈیڑھ لاکھ کا خرچہ آئے گا، اس مبارک کام میں دل کھول کر حصہ ڈال کر جنت میں گھر بنائیں"
اللھم صل اعلیٰ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔آمین
دعا کے بعد کچھ مدرسے کے طالب علم صفحوں میں چادر کی جھولی تھامے جزاک اللہ جزاک اللہ کہتے ہوئے داخل ہوئے جب عامر کے قریب پہنچے تو عامر نے جیب میں ہاتھ ڈالا ، نوٹ دیکھا اور ارادہ بدل دیا اور اس کار خیر میں حصہ نہیں لیا ۔۔ باقی 8 رکعت اس سوچ میں افسوس کرتے ہوئے گزارے کہ اس نے صدقے میں حصہ کیوں نہ لیا ـــ دعا مانگتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کر کوئی بات نہیں باہر گیٹ پر بھی مسجد کے لیے چندہ لینے والے موجودہیں ان کو دے دوں گاـــــــ
باہر پہنچا جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ نوٹ نکالا اور مٹھی میں بند کرکے ان دو کمسن طالب علموں کی طرف ارادہ کیا جو مسجد کے لیے چندہ لے رہے تھے، عامر نے غور کیا کہ دونوں طالب علم کسی غریب گھر سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ایک اس سردی میں کانپ رہی تھی اس کے جسم پر کوئی کوٹ نہیں تھیــــــ عامر نے ہاتھ بڑھایا اور جھولی میں وہ روپے ڈالنے لگا مگر اچانک ہاتھ جولی کی بجائے اس کمسن طالب علم کی جیب کی طرف بڑھایا اور اسکی جیب میں وہ نوٹ ڈال کر کہا اپنے لیے کوئی کوٹ خرید لیناــــــ "طالب" یہ ـــ یہ کیا؟؟
اس سے قبل کے وہ مزید کچھ کہتا عامر نے اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرے ہوئے مسجد سے نکل گیا۔۔۔
اللہ کے نام پر 10 روپے دے دو بابا۔۔ بچہ بھوکا ہے روٹی لیکر دو اللہ تیرا بھلا کرے۔۔۔ مسجد کے باہر بیٹھے بھکاریوں کی فریادیں ابھی تک اس کے کان سے ٹکرا رہی تھیںــــ عامر آگے چلاـــــ کچھ اور قدم آگے بڑھا کر وہ ایک دم سے رک گیاـــــ پیچھے مڑ کر دیکھاـــــــ مسجد کی زیر تعمیر گنبد پر کچھ لمحے نظریں جما کر اس کی نگائیں آسمان پر گئیںــــــــ وہ مسکرا کر بولا " Sorry Boss آپ کے گھرسے زیادہ صدقے کی ضرورت آپ کے بندوں کو ہے"
