موت
کے منتظرلوگ
(از :
امیربخش بلوچ)
2 نومبر 2013 کی شام میں اپنے دوست کے ہمراہ کوئٹہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہنچا۔ ہم ایک غیر سرکاری ادارے کی طرف سے بلوچستان کے نوجوانوں کی نمائندگی کرنے کے لیےاسلام آباد جا رہے تھے۔ ایئرپورٹ بھی عجیب جگہ ہوتی ہیں کچھ لوگ اپنے عزیزوں کی آمد کا بےتابی سے انتظار کرتے ہیں اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ انتظار کے یہ لمحے پلک جھپکتے ہی گزر جائیں اور ان کے عزیز ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں تو کچھ لوگ اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے آتے ہیں جدائی کے یہ لمحات ان کے لیے کتنی تیزی سے گزرتے ہیں یہ تو بس وہی جانتے ہیں۔۔
2 نومبر 2013 کی شام میں اپنے دوست کے ہمراہ کوئٹہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہنچا۔ ہم ایک غیر سرکاری ادارے کی طرف سے بلوچستان کے نوجوانوں کی نمائندگی کرنے کے لیےاسلام آباد جا رہے تھے۔ ایئرپورٹ بھی عجیب جگہ ہوتی ہیں کچھ لوگ اپنے عزیزوں کی آمد کا بےتابی سے انتظار کرتے ہیں اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ انتظار کے یہ لمحے پلک جھپکتے ہی گزر جائیں اور ان کے عزیز ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں تو کچھ لوگ اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے آتے ہیں جدائی کے یہ لمحات ان کے لیے کتنی تیزی سے گزرتے ہیں یہ تو بس وہی جانتے ہیں۔۔
ائیرپورٹ پر ہزارہ برادری کا ایک جوڑا موجود تھا جن کے ساتھ ایک بوڑھی عورت بھی خاموش اور اداس بیٹھی تھی جو بہت کچھ بولنا چاہتی تھی مگر وہ زندگی کے اس لمحہ سے گزر رہی تھی جب الفاظ نہیں جذبات دل کے راستے اپنا کام کردیتی ہیں۔۔۔
ایک سریلی سی آوازہمارے سماعتوں سے ٹھکرائی
" توجہ
فرمائیں، وہ
مسافر خواتین
و حضرات جو پی
آئی اے کی
پرواز پی کے 253
سے اسلام آباد
کی طرف سفر
کریں گے وہ
گیٹ نمبر ایک
سے جہاز کی
طرف تشریف لے
جائیں"
میں
روانگی کے لیے
اٹھا اور بیگ
اٹھاتے میری نگاہ
ہزارہ برادری
کے ان افراد
کی طرف پڑی۔
"۔۔بوڑھی
ماں کے آنکھوں
سے آنسو جاری
تھے اور وہ
اپنے بیٹھے کو
سینے سے لگائی
رو رہی تھی اس
کا بس چلتا تو
ساری زندگی
اپنے لخت جگر
کو اپنے سے
دور جانے نہ
دیتی مگر جان
ہے تو جہاں
ہے۔۔
اس نے
اپنے بیٹھے کے
ماتھے کو
چھوما اور جی
بھر کے اس کے
چہرے کی طرف
نظریں
جھمائی، پھر
بہو کی طرف
متوجہ ہوئی
بہو کو سینے
سے لگایااس کا
ماتھا چھوم کر
انہیں رخصت
کیا۔ جدائی کے
یہ آنسو بھرے
لمحات کتنے
دردناک ہوتے
ہیں وہ تو صرف
وہ ماں ہی
جانتی ہے جس
نے اپنے بیٹے
کی زندگی کی خاطر
اسے خود سے
دور رکھنا
گوارہ کیا!"
ایسی
مائیں ایک
طویل عرصے سے
اپنے اولاد کی
جدائی دیکھ رہی
ہیں آخر اولاد
کی قبردیکھنے
سے اس کی
جدائی کا درد لاکھ
گناہ بہترجو
ہے۔۔
ہزارہ
برادری کی غیر
ملکی سفر کی وجہ
فرقہ وارانہ
تشدد کی وہ
لہر ہے جو
گزشتہ ایک دہائی
سے کوئٹہ میں
ہزارہ
کمینونٹی کے
خلاف بارود
اور گولی کی
شکل میں جاری
ہے۔ کھیل کے
میدان
قبرستان بن
گئے ہیں قبرستان
میں قبریں بھی
کیسی قبریں! نہ
جانے کس کے
اعضا کس کے
قبر میں۔
خدا نے
ایک پورا
انسان اس دنیا
میں بھیجا تھا
اور خدا والوں
نے ادھورے
انسان واپس
خدا کی طرف
بھیجے۔
جب
تشدد نسل کشی
بن جاتی ہے تو
لوگ اپنی بقاء
کے لیے بیرون
ملک کا سفر
کرتے ہیں ۔۔۔۔
سفر! مزدور
کہاں سے
لاکھوں روپے
خرچ کرکے
بیرون ملک
جائیں
مجبوراََ
انہوں نے
غیرقانونی
طریقہ اختیار
کرکے دوسرے
ملکوںکی
سرحدیں عبور
کیے۔ کچھ
سمندر کی
موجوں کے نذر
ہوئے، کچھ کے
نصیب میں جیل
آیا، کچھ
زندگی کا سفر
راستے میں ہار
گئے اور کچھ سیاسی
پناہ کے
انتظار میں
دربہ در کی
ٹوکریں کھارہے
ہیں اور جو ڈر
کے مارے کہیں
نہیں گئےوہ ہر
روز اپنی موت
کا انتظار کرتے
ہیں ۔
مختصر آبادی
اور ہنر مند
ہزارہ کمینونٹی
آج یتیموں اور
بیواوں کی
کمیونیٹی بن گئی
ہے جہاں کوئی
گھر یا خاندان
ایسا نہیں بچا
جو جنتیوں کے
گولیوں اوربارود
کا شکار نہ
بنا ہو۔ لاشوں
کے انبار لیے
ہر بڑے واقعہ
کے بعد وہ دھرنا
دیتے ہیں اور
قاتلوں کے
گرفتاری کا
مطالبہ ان
قوتوں سے کرتے
ہیں جو
خود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
