Powered by Blogger.

Saturday, 22 March 2014

Filled Under: ,

Sarmaya e Zindagi | سرمایہ زندگی

Share


سرمایہِ زندگی
تحریر: اے ۔بی۔ بلوچ     

لاغر بدن عاجز  کریم داد جس کے بال سفید ہوئے مگر آسودگی اس کی زندگی میں نہ آئی۔ بچپن سے کھیل کود کی میدانوں کی بجائے  ہوٹلوں، دکانوں، گیراجوں ، اور تعمیراتی کمپنیوںمیں مزدوری کرتا رہا۔ کریم داد  کی زندگی میں خوشی کے کچھ ہی لمحہ گزرے ، پہلی خوشی سول سکریٹریٹ میں ملنے والی نوکری جس کا احسان وہ آج تک نہیں بھولا اور ہر جمعہ کے دن حاجی سلیم صاحب کے قبر پر جاکر ان کے مغفرت اور اعلیٰ درجات کی بلندی کے لیے دعائیں مانگتا رہتاہے۔ دوسری اپنی شادی،تیسری بار اکلوتے بیٹے عبداللہ کی پیدائش اور اب کی  بار جب عبداللہ نے کریم داد کو خوشخبری سنائی کہ  اس نے ایم اے کا امتحان پاس کرلیا ہے، بیٹے کی تمام تعلیمی کامیابیوں کی طرح کریم داد نے اس بار بھی محلے اور دفتر میں مٹھائی تقسیم کروائے شکرانے کے نوافل پڑھے کہ بیٹے نے 16 جماعت پاس کرلیا ہے۔
عبداللہ نے کیا پڑھا کہاں پرھا کریم داد زیادہ نہیں جانتا تھا مگر اس نے فیس ، کتابوں اور ٹیوش کے معاملے کھبی سمجھوتا نہیں کیا جب عبداللہ فیس مانگتا کریم داد یہاں وہاں سے ادھار لیکر اسے دے دیتا۔۔
دفتر میں منہ میٹھا کرتے ہوئے غلام علی نے چھیڑتے ہویے کریم دا د سے بولا
کریمو اب تو تم آفسر کے باپ کہلاو گے کہیں ہم جیسے دوستوں کو بھول نہ جانا
نہ سائیں کریمو جیسا تھا ویسا ہی رہے گا "کریم داد نے اپنائیت کے ساتھ جواب دیا"
زندہ باد! مگر ماماکریمو تم تو جانتا ہے  ادھر روپیہ بولتا ہے یا  فر سفارش "آدم خان نے بھی اپنی رائے دے دی"
ہاں خان بھائی اللہ سائیں مالک ہے ابھی بڑے صاحب کے پاس جاکر منت کرتا ہوں وہ  کوشش کرے لڑکے کو کوئی نوکری شوکری دلادے۔۔۔۔۔۔

ڈائریکٹر صاحب نے کریم داد کے چہرے پر نظریں گھاڑی کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا  دیکھو کریم داد اول  تو آج کل بھرتیاں ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں  سب وزیر صاحب  کے ہاتھ میں ہیں ۔۔۔ لیکن تمہاری ایمانداری، مخلصی اور غریبی کے باوجود بیٹے کو تعلم یافتہ انسان بنانے کی وجہ سے میں منسٹر صاحب سے بات کروں گا ۔
"اللہ آپ کو عزت دے سائیں آپ کے بچوں کو لمبی زندگی دے کریم داد کے زبان پر ڈائریکٹر صاحب کے لیے نیک دعائیں  جاری تھیں۔۔ "
مسکراتے ہوئے ڈائریکٹر صاحب نے کہا سنو کریم کل لڑکے کو لے آو میں دیکھ تو لوں کس پوزیشن کے لیے موزوں ہے  پھر کرتے ہیں کچھ نا کچھ اس کے لیے
سائیں ہمارا لڑکا 16 جماعت پاس ہے سب آتا ہے  اس کو  بہت قابل ہے  کل آپ خود دیکھ لینا  یہ کہہ کر کریم داد خوشی خوشی کمرے سے نکل گیا  اور آج پیدل کی بجائے میں رکشہ میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔۔۔
 اگلے دن عبداللہ کو اپنے ساتھ لے آیا اور سب سے فخریہ انداز میں ملتے ملاتے ڈائریکٹر کے کمرے میں لے آیا
عبدُو ادھر بیٹھو ابھی بڑا صاحب آئے گا ادب سے بات کرنا اس سے اچھا ، بڑا نیک بندا ہے اللہ سائیں لمبی زندگی دے۔
نہ جانے عبداللہ کہ چہرے پر اطمینان کیوں نہیں تھا  مسلسل ماتھے سے پسینے جاری تھے
کچھ دیر  بعد ڈائریکٹر صاحب آئے    تو کریم نے کہا صاحب یہ ہمارا لڑکا ہے ۔
ڈائریکٹر صاحب نے  مسکراتے ہوئے کہا " آو آر یو جینٹلمن"
آئی ایم فائن سر تھینک یو عبداللہ نے جواب دیا
عبداللہ کے جواب پر کریم داد کا سر فخر سے مزید بلند ہوگیا
"انٹروڈیوس یور سیلف مسٹر عبداللہ" ڈائریکٹر صاحب نے کہا
جی سر میرا نام عبداللہ ہے اور میں نے ایم۔۔۔۔۔۔
عبداللہ  کو ٹوکتے ہوئے ڈائریکٹر صاحب نے زور دے کر کہا "انٹروڈیوس یور سیلف
ـــ مسٹر عبداللہ"
"سرآئی ایم عبداللہ،سر آئی ایم اے پاس،سر آئی ریڈ اِن یونیورسٹی۔۔۔۔"
بس بس ٹھیک ہے ۔
ڈائریکٹر کے لہجہ  سے کریم داد  کے ماتھے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے
ڈائریکٹر صاحب نے پین اور کاغذ عبداللہ کے طرف بڑھاتے ہوئے کہا
اپنے ملازمت کے لیے میرے نام ایک جاب اپلیکشن لکھو ۔۔۔ اور ہاں 'انگلش میں۔۔یہ کہہ کر ڈائریکٹر صاحب نے اخبار اٹھایا اور پڑھنے لگا مگر توجہ عبداللہ کی طرف ہی تھا
پین ہاتھ میں تھامے عبداللہ ایک دو سطرین لکھ کر رکھ گیا  ۔۔۔ عبداللہ کو آج شدید افسوس ہورہا تھا کہ اگر وہ ٹیوشن کے پیسے  گیمنگ زون اور ہوٹلوں میں خرچ کرنے کی بجائے واقعی تعلیم کی راہ میں خرچ کرتا تو آج شرمندگی کا یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔۔۔
 عبداللہ کے حواس تب واپس آئے جب کریم داد نے عبداللہ کے بازو کوجھٹکا دیتے ہوئے کہا کیا سوچ رہے ہو بیٹے جلدی جلدی لکھو صاحب کو اور بہت کام ہیں۔۔
ڈائریکٹر صاحب نے لمبی سی آہ بھری  عبداللہ کی طرف دیکھاپھر کریم داد کی طرف متوجہ ہوا
"کریم داد۔۔۔۔۔۔ اگر تم چاہتے ہو تو اس کو یہاں چپراسی کی نوکری دے سکتا ہوں اس کے لیے مجھے منسٹر صاحب سے سفارش کرنے کی ضرورت نہیں پڑھے گی اور یہ بھی میں صرف تمہاری ایماندای اور مخلصی کی وجہ سے کروں گا ورنہ۔۔۔۔۔"
صاحب ہمارا لڑکا 16 جماعت پاس ہے چپراسی گیری  ۔۔۔ "کریم داد کے چہرے پر سوالیہ حیرانگی ابھر آئی"
ہاں ہاں ۔۔تو بولو اپنے 16 جماعت پاس کو درخواست لکھ دے نا "ڈائریکٹر صاحب کا لہجہ قدرے طنزیہ تھا"
اوےعبدُو جلدی لکھو! اس بار کریم داد کی آنکھوں میں غضب کا غصہ تھا
مگر عبداللہ تھا کہ بے جان مجسمے کی طرح  آنکھیں زمین پرگھاڑے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔
عبداللہ! عبداللہ!۔۔۔۔۔ کریم داد کی آواز  عبداللہ کا سر اونچا نہ کرسکا۔
اب کریم داد سب کچھ سمجھ گیاتھا ۔۔ ۔ کچھ دیر اپنے دونوں ہتھیلیاں آپس میں ملتے خاموش بیٹھا رہا  پھر آنکھوں میں نمی لیے خاموشی سے اٹھا۔۔ سر جھکائے دھیمے قدموں دروازے سے باہر نکل گیا۔