Powered by Blogger.

Thursday, 17 April 2014

Filled Under:

Chairman --- Urdu Fiction

Share
تحریر: امیربخش بلوچ 




عبدالغفار اپنے والد کی بیماری کے بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ کچھ جماعت پڑھنے کے بعد جاری نہ رکھ سکا اسی وجہ سے وہ بولان میڈیکل کالج کے میس میں کُک بننے پر مجبور ہوا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی فوج بلوچستان کے طول و عرض میں طویل خونی آپریشن مکمل کرکے واپس اپنے بیرکوں میں جاچکے تھے اور دوسری طرف شہیدوں کے ناموں پر سیاست اپنے عروج پر تھی کہیں نظریاتی تو کہیں حصول اقتدار کے لیے!    
اَسی کے دہائی میں حکومت بلوچستان نے میڈیکل کالج کے طلباء کے لیے  جناح روڈ کوئٹہ میں ایک چھوٹے سے پلازہ کا بندوبست کیا تھا جس میں چند طلباء رہائش پذیر تھے جبکہ بروری روڈ مستقل ہاسٹل تعمراتی مراحل میں تھا۔ غفار کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا مگر غریبی، بےروزگاری اور والد کی بیماری اس کے شوق کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی تھی مگر وہ ہمت نہ ہارا کتاب ہاتھ میں لیےاکثر کسی نہ کسی سٹوڈنٹ سے کچھ نہ کچھ پوچھ کر علم کے سمندر سے چند قطرے حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔ غفار کی گھر کی حالت اس قدرزبوں حالی کا شکار تھا کہ وہ سٹوڈنٹس کے بچے ہوئے روٹی اور سالن گھر لےجایا کرتا تھا جسے گھر کے سب افراد کھا کر گزارا کرلیتے تھے جبکہ غفار کی تنخواہ والد کے علاج میں خرچ ہوجاتا تھا۔۔
غفار۔۔۔۔ ۔ یار آپ ایک کام کرو۔۔ آج سے نوید یونیورسٹی سے یہاں آیا کرے گا تو بڑی راز داری کے ساتھ میس کے بچے ہوئے کھانے اس کو دے دینا اور اس بات کا ذکر کسی اور کے ساتھ مت کرنا۔
غفار حیرت  و ناگواری کے ساتھ ماتھے کے پسینہ پونچتے ہوئے "یہ نوید کون ہے؟"
ڈاکٹر نور آنکھوں سے عینک اتارتے ہوئے  غفار کو ڈانٹ کر کہا "آپ کو پتا نہیں نوید بہت غریب باپ کا بیٹا ہے کتنے مشکلوں سے تعلیم حاصل کررہا ہے اس کے پاس یونیورسٹی ہاسٹل کے فیس تک نہیں اس لیے میں نے اس کے لیے یہاں ایک کمرے کا بندوبست کیا ہے بس خاموشی سے اس کے سامنے کھانا رکھ لینالیکن میرے  اس بات کےبارے میں ہرگز نوید کا پتہ نہ چلے وہ بہت  خوددار انسان ہے۔۔۔ ۔
لیکن ۔۔لیکن ۔۔۔۔ "غفار بولتا بھی کیا زبان اٹک سا گیا، ڈاکٹر نور کے اگلے جملے نے تو بالکل غفار کی بولتی بند کردی"
 دیکھنا غفار ۔۔ایک دن نوید بہترین عوامی لیڈر کے طور پر ہماری نمائندگی کرے گا! "نور کی  آنکھوں میں امید کی کرن چمک رہی تھی۔
ڈاکٹر نور کی باتیں سن کر غفار کے پیروں تلے زمین نکل گئی وہ اپنے پیٹ پر لات مار کر کیسے نوید کے لیے کھانا بچائے، وہ بہت پریشان ہوا غصے سے لال پیلا بھی ہوا اور پورا دن بڑبڑاتا رہا   سوچتا رہاکہ یہ نوید مصیبت کہاں سے میرےسرپر مسلط ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔شام کو نوید آیا،  ڈاکٹر نور کے ذریعے غفار نوید سے ملا ،اس نے نوید کو دیکھا  تو اپنائیت محسوس ہوئی غفار کا مزاج قدر ٹھنڈا ہوا اور اس نے سوچا۔۔ چلو اسی میں خیر!
نوید جب بھی آتا تو غفار بڑی اپنائیت کے ساتھ اس  کو کھانا پیش کیا کرتا تھا ایک بھائی کی طرح رازداری سے اس کے ضروریات پورا کرتا تھا  وقت گزرتا رہا نوید اور غفار کی دوستی بھی پروان چھڑنے لگا ، نوید کی تنظیم پورے بلوچستان میں چھا گئی تھی ان کی صرف ایک کال پر پورا کوئٹہ شہر امڈ کر سڑکوں پر آجاتا تھا اور نوید کی شعلہ بیان تقریریں سامعین کی رونگھٹے کھڑے کردیتے تھے۔  نوید کی شہرت جنگل کی آگ کی طرح بلوچستان کے وسعت میں پھیل چکی تھی جس کی وجہ سے جلد ہی وہ تنظیم کا چئیرمین کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا۔ نوید کی شان میں جذباتی نعرے بلند ہونے لگے تھے
 "تیری جان میر ی جان نوید جان نوید جان، "نوید جان کی قیادت وقت کی ضرورت"
 نوید ایک عوامی لیڈر کے طور پر منظر پرآچکا تھا تعلیمی اداروں سے گلی کوچوں تک  نوید کی شان میں وال چاکنگ درج تھے۔ الیکشن ہوئے الیکشن میں نہ صرف نوید کو کامیابی ملی بلکہ اگلے مرحلے میں وہ اسمبلی کا اسپیکر بھی بن گیا۔
اس سارے الیکشن مہم میں غفار نے  دن رات ایک کردیے تھے نوید کا اسپیکر بننے پر وہ اس قدر خوش تھا جیسے اسپیکر نوید نہیں بلکہ غفار بنا ہو!
غربت کے ہاتھوں تمام رشتہ دار غفار سے منہ موڑ چکے تھے وہ ان تمام مشکلات کو دور کرنے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے کاغذات اس امید پر اٹھا لیتا ہے کہ اس نے نہ صرف مشکل حالات میں نوید کی مدد کی ہے بلکہ اس کی رازداری بھی کی ہے وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔
اچھا ابا جان۔۔۔۔ میں بھائی کے کاغذات لےکر نوید جان کے پاس جارہا ہوں
غفار کے والد نے لرزتے اور دھیمے آواز سے  پوچھا خیر سے؟
نوید کے چہرے پر سارے جہاں کا امید پھیل گیا تھا اس نے مسکراتے ہوئے والد سے کہا ابا جان آپ فکر نہ کریں نوید میرا پکا یار ہے ضرور خوشخبری لے کر گھر لوٹوں گا۔
غفار اسمبلی پہنچ کر ایک چھوٹے سے کاغذ پر "غفار کُک آف دی بی ایم سی میس" لکھ کر اسپیکر کے پی اے کے میز پر رکھ دیتا ہے، پی ایک نظر پاوں سے سر تک غفار کی طرف نظر دوڑا کر غفار کی حالت کا جائزہ لیتا ہے اور پھر طنزیہ انداز میں پوچھتا ہے آپ پھر کس سے ملنے آئے ہو؟
غفار نے بھر پور اعتماد سے سینہ چوڑا کرکے کہا آپ صرف یہ پرچی نوید صاحب کو دکھاو وہ فوراََ مجھے اندر بلا لے گا۔۔ غفار کے اس بھر پور اعتماد نے پی اے کو لاجواب کردیا اور وہ پرچی اٹھا کر سیدھا نوید کے پاس پہنچا جو کہ اپنے سفید پوش دوستوں کے ساتھ ثناء قہقوں اور لوازمات میں مصروف تھا، جیسے ہی اس نے رقعہ پر "غفار کُک آف دی بی ایم سی میس" دیکھا تو ایک لمحہ کے لیے اس کا حلق خشک ہوگیا اور اگلے ہی لمحے اس کے لال چہرے پر غضب کا غصہ طاری ہوا اور اس نے بہت ہی نفرت سے پی اے کو گھورنا شروع کردیا۔۔۔ پی سمجھ گیا تھا کہ مجھے اس بندے کا نام اندر لانا ہی نہیں چاہیے تھا باہر سے ٹال دینا چاہے تھا وہ لڑکھڑا کر اور شرمسار ہوکر  بولا سور ی ۔۔ سوری سر اور کمرے سے باہر نکل گیا اور باہر آکر  پرچی غفار کے کی طرف پھینک کر کہا صاحب آج کل بہت مصروف ہیں ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ تم جیسوں سے ملتا پھرے۔۔۔۔
غفار کو پی اے کی باتیں سن کر شدید دھچکا لگا ۔ اس کی تمام امیدیں خاک میں مل  گئی   کچھ لمحہ وہ ماضی میں کھو گیا  اس کی آنکھوں کے سامنے نوید کو پہلی بار روٹی کے ٹکڑےاور  کھانا پیش کرنے کا منظر گھومنے لگا اور ڈاکٹر نور کی پرامید اور چھمکتی ہوئی آنکھی اور اس کی آواز کانوں میں گھونجنے لگی
 " دیکھنا غفار۔۔۔ نوید ایک دن بہترین عوامی لیڈر بن کر ہماری نمائندگی کرےگا۔۔۔"
غفار  پی اے کمرے  سے ناامید نکل پڑا۔۔۔ اچانک اس کی نظر نوید صاحب کے چپراسی کی طرف پڑی جو نوید کا بچا ہوا کھانا باہر ڈسٹ بین میں پھینک رہا تھا۔

0 comments:

Post a Comment